منٹو کے افسانے भाग 3
منٹو کے افسانے 4
جانکی
’’ یہ کہ دونوں میں سے آپ کے لیے کون بہتر رہے گا!‘‘ جانکی کو میری یہ بات ناگوار گزری۔ ’’کیسی باتیں کرتے ہیں آپ؟‘‘ ’’جیسی تم چاہتی ہو۔‘‘ ’’ہٹائیے بھی۔‘‘ یہ کہہ وہ مسکرائی۔’’ میں اب آپ سے کچھ نہیں پوچھوں گی۔‘‘ میں نے مسکراتے ہُوئے کہا۔ ’’جب پوچھو گی تو میں نرائن کی سفارش کروں گا۔‘‘ ’’کیوں؟‘‘ ’’اس لیے کہ وہ سعید کے مقابلے میں بہتر ا نسان ہے۔‘‘ میرا اب بھی یہی خیال ہے۔ سعید شاعر ہے، ایک بہت بے رحم قسم کا شاعر۔ مرغی پکڑے گا تو ذبح کرنے کی بجائے اس کی گردن مروڑ دے گا۔ گردن مروڑ کراس کے پر نوچے گا۔ پر نوچنے کے بعد اس کی یخنی نکالے گا۔یخنی پی کر اور ہڈیاں چبا کر وہ بڑے آرام اور سکون سے ایک کونے میں بیٹھ کر اس کی مرغی کی موت پر ایک نظم لکھے گا جو اس کے آنسوؤں میں بھیگی ہوگی۔ شراب پیے گا تو کبھی بہکے گا نہیں۔ مجھے اس سے بہت تکلیف ہوتی ہے کیونکہ شراب کا مطلب ہی فوت ہو جاتا ہے۔ صبح بہت آہستہ آہستہ بستر پر سے اُٹھے گا۔ نوکر چائے کی پیالی بنا کر لائے گا۔ اگر رات کی بچی ہُوئی رم سرہانے پڑی ہے تو اسے چائے میں انڈیل لے گا اور اس مکسچر کو ایک ایک گھونٹ کرکے ایسے پیے گا جیسے اس میں ذائقے کی کوئی حس ہی نہیں۔ بدن پرکوئی پھوڑا نکلا ہے۔ خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے، مگر مجال ہے جو وہ اس کی طرف متوجہ ہو۔ پیپ نکل رہی ہے، گل سڑ گیا ہے، ناسور بننے کا خطرہ ہے، لیکن سعید کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جائے گا۔ آپ اس سے کچھ کہیں گے تو یہ جواب ملے گا۔’’ اکثر اوقات بیماریاں انسان کی جزو بدن ہو جاتی ہیں۔ جب مجھے یہ زخم تکلیف نہیں دیتا تو علاج کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے وہ زخم کی طرف اس طرح دیکھے گا جیسے کوئی اچھا شعر نظر آگیا ہے۔ ایکٹنگ وہ ساری عمر نہیں کرسکے گا، اس لیے کہ وہ لطیف جذبات سے قریب قریب عاری ہے۔ میں نے اسے ایک فلم میں دیکھا جو ہیروئن کے گانوں کے باعث بہت مقبول ہوا تھا۔ ایک جگہ اس نے اپنی محبوبہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر محبت کا اظہار کرنا تھا۔ خدا کی قسم اس نے ہیروئن کا ہاتھ کچھ اس طرح اپنے ہاتھ میں لیا جیسے کتے کا پنجہ پکڑا جاتا ہے۔ میں اس سے کئی بار کہہ چکا ہوں ایکٹر بننے کا خیال اپنے دماغ سے نکال دو، اچھے شاعر ہو، گھر بیٹھو اور نظمیں لکھا کرو۔ مگر اس کے دماغ پر ابھی تک ایکٹنگ کی دُھن سوار ہے۔ نرائن مجھے بہت پسند ہے۔ اسٹوڈیو کی زندگی کے جو اصول اس نے اپنے لیے وضع کر رکھے ہیں، مجھے اچھے لگتے ہیں۔ 1۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایکٹر جب تک ایکٹر ہے، اسے شادی نہیں کرنی چاہیے۔ شادی کرلے تو فوراً فلم کو طلاق دے کر دودھ دہی کی دکان کھول لے۔ اگر مشہور ایکٹر رہا تو کافی آمدنی ہو جایا کرے گی۔ 2۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ایکٹرس تمہیں بھیا یا بھائی صاحب کہے تو فوراً اس کے کان میں کہو، آپ کی انگیا کا سائز کیا ہے۔ 3۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی ایکٹرس پر اگر تمہاری طبیعت آگئی ہے تو تمہیدیں باندھنے میں وقت ضائع نہ کرو۔ اس سے تخلیے میں ملو اور کہو کہ میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں، اس کا یقین نہ آئے تو پوری جیب باہر نکال کر دکھا دو۔ 4۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگرکوئی ایکٹرس تمہارے حصے میں آجائے تو اس کی آمدنی میں سے ایک پیسہ بھی نہ لو ایکٹرسوں کے شوہروں اور بھائیوں کے لیے یہ پیسہ حلال ہے۔ 5۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بات کا خیال رکھنا کہ ایکٹرس کے بطن سے تمہاری کوئی اولاد نہ ہو۔ سوراج ملنے کے بعد البتہ تم اس کی اولاد پیدا کرسکتے ہو۔ 6۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد رکھو کہ ایکٹر کی بھی عاقبت ہوتی ہے۔ اسے ریزر اور کنگھی سے سنوارنے کے بجائے کبھی کبھی غیر مہذب طریقے سے بھی سنوارنے کی کوشش کیا کرو، مثال کے طور پر کوئی نیک کام کرکے۔ 7۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسٹوڈیو میں سب سے زیادہ احترام پٹھان چوکیدار کا کرو۔ صبح اسٹوڈیو میں آتے وقت اسے سلام کرنے سے تمہیں فائدہ ہوگا۔ یہاں نہیں تو دوسری دنیا میں، جہاں فلم کمپنیاں نہیں ہوں گی۔ 8۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شراب اور ایکٹرس کی عادت ہرگز نہ ڈالو۔ بہت ممکن ہے کہ کسی روز کانگرس گورنمنٹ لہر میں آکر یہ دونوں چیزیں ممنوع قرار دے دے۔ 9۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوداگر، مسلمان سوداگر ہوسکتا ہے۔ لیکن ایکٹر ہندو ایکٹر، یا مسلم ایکٹر نہیں ہوسکتا۔ 10۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جھوٹ نہ بولو۔ یہ سب باتیں’’ نرائن کے دس احکام‘‘ کے عنوان تلے اس نے اپنی ایک نوٹ بک میں لکھ رکھی ہیں جن سے اس کے کیریکٹر کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ان سب پر عمل نہیں کرتا۔ مگر یہ حقیقت نہیں۔ سعید اور نرائن کے متعلق جو میرے خیالات تھے۔ میں نے جانکی کے پوچھے بغیر اشارۃً بتا دیے اور آخر میں اس سے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ اگر تم اس لائن میں آگئیں تو کسی نہ کسی مرد کا سہارا تمہیں لینا پڑے گا۔ نرائن کے متعلق میرا خیال ہے کہ اچھا دوست ثابت ہوگا۔ میرا مشورہ اس نے سُن لیا اور بمبئی چلی گئی۔ دوسرے روز خوش خوش واپس آئی کیونکہ نرائن نے اپنے اسٹوڈیو میں ایک سال کے لیے پانچ سو روپے ماہوار پر اسے ملازم کرادیا تھا۔ یہ ملازمت اسے کیسی ملی، دیر تک اس کے متعلق باتیں ہوئیں۔ جب اور کچھ سننے کو نہ رہا تو میں نے اس سے پوچھا۔’’ سعید اور نرائن، دونوں سے تمہاری ملاقات ہوئی، ان میں سے کس نے تم کو زیادہ پسند کیا؟‘‘ جانکی کے ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ لغزش بھری نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہُوئے اس نے کہا۔’’ سعید صاحب!‘‘ یہ کہہ کروہ ایک دم سنجیدہ ہوگئی۔’’ سعادت صاحب آپ نے کیوں اتنے پُل باندھے تھے۔ نرائن کی تعریفوں کے؟‘‘ میں نے پوچھا۔’’کیوں‘‘ ’’بڑا ہی واہیات آدمی ہے۔ شام کو باہر کرسیاں بچھا کر سعید صاحب اور وہ شراب پینے کے لیے بیٹھے تو باتوں باتوں میں میں نے نرائن بھیا کہا۔ اپنا منہ میرے کان کے پاس لاکرپوچھا۔ ’’ تمہاری انگیا کا سائز کیا ہے۔‘‘ ’’بھگوان جانتا ہے میرے تن بدن میں تو آگ ہی لگ گئی کیسا لچر آدمی ہے۔‘‘ جانکی کے ماتھے پر پسینہ آگیا۔ میں زور زور سے ہنسنے لگا۔ اس نے تیزی سے کہا۔’’ آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟‘‘ ’’اس کی بے وقوفی پر۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے ہنسنا بند کردیا۔ تھوڑی دیر نرائن کو برا بھلا کہنے کے بعد جانکی نے عزیز کے متعلق فکر مند لہجے میں باتیں شروع کردیں۔ کئی دنوں سے اس کا خط نہیں آیا تھا۔ اس لیے طرح طرح کے خیال اسے ستا رہے تھے۔ کہیں انھیں پھر زکام نہ ہوگیا ہو۔ اندھا دھند سائیکل چلاتے ہیں، کہیں حادثہ ہی نہ ہوگیا ہو۔ پونہ ہی نہ آرہے ہوں، کیونکہ جانکی کورخصت کرتے وقت انھوں نے کہا تھا ایک روز میں چپ چاپ تمہارے پاس چلا آؤں گا۔ باتیں کرنے کے بعد اس کا تردّد کم ہوا تو اس نے عزیز کی تعریفیں شروع کردیں۔ گھر میں بچوں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ہر روز صبح ان کو ورزش کراتے ہیں اور نہلا دھلا کر سکول چھوڑنے جاتے ہیں۔ بیوی بالکل پھوہڑ ہے، اس لیے رشتہ داروں سے سارا رکھ رکھاؤ خود انہی کو کرنا پڑتا ہے۔ ایک دفعہ جانکی کو ٹائی فائڈ ہوگیا تھا تو بیس دن تک متواتر نرسوں کی طرح اس کی تیمار داری کرتے رہے، وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے روز مناسب و موزوں الفاظ میں میرا شکریہ ادا کرنے کے بعد وہ بمبئی چلی گئی۔ جہاں اس کے لیے ایک نئی اور چمکیلی دنیا کے دروازے کھل گئے تھے۔ پونہ میں مجھے تقریباً دو مہینے کہانی کا منظر نامہ تیار کرنے میں لگے۔ حقِ خدمت وصول کرکے میں نے بمبئی کا رخ کیا جہاں مجھے ایک نیا کنٹریکٹ مل رہا تھا۔ میں صبح پانچ بجے کے قریب اندھیری پہنچا جہاں ایک معمولی بنگلے میں سعید اور نرائن دونوں اکٹھے رہتے تھے۔ برآمدے میں داخل ہوا تو دروازہ بند پایا۔ میں نے سوچا سو رہے ہوں گے، تکلیف نہیں دینا چاہیے۔ پچھلی طرف ایک دروازہ ہے۔ جو نوکروں کے لیے اکثر کھلا رہتا ہے، میں اس میں سے اندر داخل ہُوا۔ باورچی خانہ اور ساتھ والا کمرہ جس میں کھانا کھایا جاتا ہے، حسبِ معمول بے حد غلیظ تھے۔ سامنے والا کمرہ مہمانوں کے لیے مخصوص تھا۔ میں نے اس کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا۔ کمرے میں دو پلنگ تھے۔ ایک پر سعید اور اسکے ساتھ کوئی اور لحاف اوڑھے سو رہا تھا۔ مجھے سخت نیند آرہی تھی۔ دوسرے پلنگ پر میں کپڑے اُتارے بغیر لیٹ گیا پائنتی پر کمبل پڑا تھا، یہ میں نے ٹانگوں پر ڈال لیا۔ سونے کا ارادہ ہی کررہا تھاکہ سعید کے پیچھے سے ایک چوڑیوں والا ہاتھ نکلا اور پلنگ کے پاس رکھی ہوئی کرسی کی طرف بڑھنے لگا۔ کرسی پر لٹھے کی سفید شلوار لٹک رہی تھی۔ میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ سعید کے ساتھ جانکی لیٹی تھی۔ میں نے کرسی پر سے شلوار اٹھائی اور اس کی طرف پھینک دی۔ نرائن کے کمرے میں جا کر میں نے اسے جگایا۔ رات کے دو بجے اس کی شوٹنگ ختم ہوئی تھی، مجھے افسوس ہوا کہ خواہ مخواہ اس غریب کو جگایا۔ لیکن وہ مجھ سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔ کسی خاص موضع پر نہیں۔ مجھے اچانک دیکھ کر بقول اس کے وہ کچھ بے ہودہ بکواس کرنا چاہتا تھا، چنانچہ صبح نو بجے تک ہم بے ہودہ بکواس میں مشغول رہے جس میں بار بار جانکی کا بھی ذکر آیا۔ جب میں نے انگیا والی بات چھیڑی تو نرائن بہت ہنسا۔ ہنستے ہنستے اس نے کہا سب سے مزے دار بات تو یہ ہے کہ جب میں نے اس کے کان کے ساتھ منہ لگا کر پوچھا۔تمہاری انگیا کا سائز کیا ہے تو اس نے بتا دیا کہا۔’’چوبیس۔‘‘ اس کے بعد اچانک اسے میرے سوال کی بے ہودگی کا احساس ہوا۔ مجھے کوسنا شروع کردیا۔ بالکل بچی ہے۔ جب کبھی مجھ سے مڈبھیڑ ہوتی ہے تو سینے پر دوپٹہ رکھ لیتی ہے۔ لیکن منٹو! بڑی وفادار عورت ہے۔ میں نے پوچھا۔’’ یہ تم نے کیسے جانا؟‘‘ نرائن مسکرایا۔’’ عورت، جو ایک بالکل اجنبی آدمی کو اپنی انگیا کا صحیح سائز بتا دے، دھوکے باز ہرگز نہیں ہوسکتی۔‘‘ عجیب و غریب منطق تھی۔ لیکن نرائن نے مجھے بڑی سنجیدگی سے یقین دلایا کہ جانکی بڑی پُر خلوص عورت ہے۔اس نے کہا منٹو۔’’ تمہیں معلوم نہیں سعید کی کتنی خدمت کررہی ہے۔ ایسے انسان کی خبر گیری جو پرلے درجے کا بے پروا ہو آسان کام نہیں۔ لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ جانکی اس مشکل کو بڑی آسانی سے نبھا رہی ہے۔ عورت ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک پر خلوص اور ایماندار آیا بھی ہے۔ صبح اٹھ کر اس خرذات کو جگانے میں آدھ گھنٹہ صرف کرتی ہے۔ اس کے دانت صاف کراتی ہے، کپڑے پہناتی ہے، ناشتہ کراتی ہے اور رات کو جب وہ رم پی کر بستر پر لیٹتا ہے تو سب دروازے بند کرکے اس کے ساتھ لیٹ جاتی ہے اور جب اسٹوڈیو میں کسی سے ملتی ہے تو صرف سعید کی باتیں کرتی ہیں۔ سعید صاحب بڑے اچھے آدمی ہیں۔ سعیدصاحب بہت اچھا گاتے ہیں۔ سعید صاحب کا وزن بڑھ گیا ہے۔ سعید صاحب کا پل اوور تیار ہوگیا ہے۔ سعید صاحب کے لیے پشاور سے پوٹھوہاری سینڈل منگوائی ہے۔ سعید صاحب کے سر میں ہلکا ہلکا درد ہے۔ اسپرو لینے جارہی ہوں۔ سعید صاحب نے آج مجھ پر ایک شعر کہا۔ اور جب مجھ سے مڈبھیڑ ہوتی ہے تو انگیا والی بات یاد کرکے تیوری چڑھا لیتی ہے۔‘‘ میں تقریباً دس دن سعید اور نرائن کا مہمان رہا۔ اس دوران میں سعید نے جانکی کے متعلق مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ شاید اس لیے کہ ان کا معاملہ کافی پرانا ہو چکا تھا۔ جانکی سے البتہ کافی باتیں ہوئیں۔ وہ سعید سے بہت خوش تھی لیکن اسے اس کی بے پروا طبعیت کا بہت گلہ تھا۔’’سعادت صاحب! اپنی صحت کا بالکل ہی خیال نہیں رکھتے۔ بہت بے پرواہ ہیں۔ ہر وقت سوچنا، جو ہوا اس لیے کسی بات کا خیال ہی نہیں رہتا۔ آپ ہنسنے لگے، لیکن مجھے ہر روز ان سے پوچھنا پڑتا ہے کہ آپ سنڈاس گئے تھے یا نہیں۔‘‘ نرائن نے مجھ سے جو کچھ کہا تھا، ٹھیک نکلا۔ جانکی ہر وقت سعید کی خبر گیری میں منہمک رہتی تھی۔ میں دس دن اندھیری کے بنگلے میں رہا۔ ان دس دنوں میں جانکی کی بے لوث خدمت نے مجھے بہت متاثر کیا۔ لیکن یہ خیال بار بار آتا رہا کہ عزیز کو کیا ہوا۔ جانکی کو اس کا بھی تو بہت خیال رہتا ہے۔ کیا سعید کو پا کروہ اس کو بھول چکی تھی۔ میں نے اس سوال کا جواب جانکی ہی سے پوچھ لیا ہوتا اگر میں کچھ دن اور وہاں ٹھہرتا۔ جس کمپنی سے میرا کنٹریکٹ ہونے والا تھا، اس کے مالک سے میری کسی بات پر چخ ہوگئی اور میں دماغی تکدر دُور کرنے کے لیے پونہ چلا گیا۔ دو ہی دن گزرے ہوں گے کہ بمبئی سے عزیز کا تار آیا کہ میں آرہا ہوں۔ پانچ چھ گھنٹے کے بعد وہ میرے پاس تھا۔ اور دوسرے روز صبح سویرے جانکی میرے کمرے پر دستک دے رہی تھی۔ عزیز اور جانکی جب ایک دوسرے سے ملے تو انھوں نے دیر سے بچھڑے ہُوئے عاشق معشوق کی سرگرمی ظاہر نہ کی۔ میرے اور عزیز کے تعلقات شروع سے بہت سنجیدہ اور متین رہے ہیں، شاید اسی وجہ سے وہ دونوں معتدل رہے۔ عزیز کا خیال تھا ہوٹل میں اُٹھ جائے لیکن میرا دوست جس کے یہاں میں ٹھہرا تھا آؤٹ ڈور شوٹنگ کے لیے کولہا پور گیا تھا، اس لیے میں نے عزیز اور جانکی کو اپنے پاس ہی رکھا۔ تین کمرے تھے۔ ایک میں جانکی سو سکتی تھی دوسرے میں عزیز۔ یوں تو مجھے ان دونوں کو ایک ہی کمرہ دینا چاہیے تھا لیکن عزیز سے میری اتنی بے تکلفی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اس نے جانکی سے اپنے تعلق کو مجھ پر ظاہر بھی نہیں کیا تھا۔ رات کو دونوں سینما دیکھنے چلے گئے۔ میں ساتھ نہ گیا، اس لیے کہ میں فلم کے لیے ایک نئی کہانی شروع کرنا چاہتا تھا۔ دو بجے تک میں جاگتا رہا۔ اس کے بعد سو گیا۔ ایک چابی میں نے عزیز کو دے دی تھی۔ اس لیے مجھے ان کی طرف سے اطمینان تھا۔ رات کو میں چاہے بہت دیر تک کام کروں، ساڑھے تین اور چار بجے کے درمیان ایک دفعہ ضرور جاگتا ہوں اور اٹھ کر پانی پیتا ہوں۔ حسب عادت اس رات کو بھی میں پانی پینے کے لیے اٹھا۔ اتفاق سے جو کمرہ میرا تھا،یعنی جس میں میں نے اپنا بستر جمایا ہوا تھا، عزیز کے پاس تھا اور اس میں میری صراحی پڑی تھی۔ اگر مجھے شدت کی پیاس نہ لگی ہوتی تو عزیز کو تکلیف نہ دیتا۔ لیکن زیادہ وسکی پینے کے باعث میرا حلق بالکل خشک ہورہا تھا، اس لیے مجھے دستک دینی پڑی۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا۔ جانکی نے آنکھیں ملتے ملتے دروازہ کھولا اور کہا’’ سعید صاحب!‘‘ اور جب مجھے دیکھا تو ایک ہلکی سی’’اوہ‘‘ اس کے منہ سے نکل گئی۔ اندر کے پلنگ پر عزیز سو رہا تھا۔ میں بے اختیار مسکرایا۔ جانکی بھی مسکرائی اور اس کے تیکھے ہونٹ ایک کونے کی طرف سکڑ گئے۔ میں نے پانی کی صراحی لی اور چلا آیا۔ صبح اُٹھا تو کمرے میں دُھواں جمع تھا۔ باورچی خانے میں جا کر دیکھا تو جانکی کاغذ جلا جلا کر عزیز کے غسل کے لیے پانی گرم کررہی تھی۔ آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر مسکرائی اور انگیٹھی میں پھونکیں مارتی ہوئی کہنے لگی۔’’ عزیز صاحب ٹھنڈے پانی سے نہائیں تو انھیں زکام ہو جاتا ہے۔ میں نہیں تھی پشاور میں تو ایک مہینہ بیماررہے، اور رہتے بھی کیوں نہیں جب دوا پینی ہی چھوڑ دی تھی۔۔۔۔۔۔ آپ نے دیکھا نہیں کتنے دبلے ہوگئے ہیں۔‘‘ اور عزیز نہا دھو کر جب کسی کام کی غرض سے باہر گیا تو جانکی نے مجھ سے سعید کے نام تار لکھنے کے لیے کہا۔ ’’مجھے کل یہاں پہنچتے ہی انھیں تار بھیجنا چاہیے تھا۔ کتنی غلطی ہوئی مجھ سے انھیں بہت تشویش ہورہی ہوگی۔‘‘ اس نے مجھ سے تار کا مضمون بنوایا جس میں اپنی بخیریت پہنچنے کی اطلاع تو تھی لیکن سعید کی خیریت دریافت کرنے کا اضطراب زیادہ تھا۔ انجکشن لگوانے کی تاکید بھی تھی۔ چار روز گزر گئے۔ سعید کو جانکی نے پانچ تار روانہ کیے پر اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ بمبئی جانے کا ارادہ کررہی تھی کہ اچانک شام کو عزیز کی طبیعت خراب ہوگئی۔ مجھ سے سعید کے نام ایک اور تار لکھوا کر وہ ساری رات عزیز کی تیمار داری میں مصروف رہی۔ معمولی بخار تھا لیکن جانکی کو بے حد تشویش تھی۔ میرا خیال ہے اس تشویش میں سعید کی خاموشی کا پیدا کردہ وہ اضطراب بھی شامل تھا۔ وہ مجھ سے اس دوران میں کئی بار کہہ چکی تھی۔’’ سعادت صاحب میرا خیال ہے سعید صاحب ضرور بیمار ہیں ورنہ وہ مجھے میرے تاروں اور خطوط کا جواب ضرورلکھتے۔‘‘ پانچویں روز شام کو عزیز کی موجودگی میں سعید کا تار آیا جس میں لکھا تھا میں بہت بیمار ہُوں فوراً چلی آؤ۔ تار آنے سے پہلے جانکی میری کسی بات پر بے تحاشا ہنس رہی تھی۔ لیکن جب اس نے سعید کی بیماری کی خبر سنی تو ایک دم خاموش ہوگئی۔ عزیز کو یہ خاموشی بہت ناگوار معلوم ہوئی کیونکہ جب اس نے جانکی کومخاطب کیا تو اس کے لہجے میں تیزی تھی۔ میں اُٹھ کرچلا گیا۔ شام کو جب واپس آیا تو جانکی اور عزیز کچھ اس طرح علیحدہ علیحدہ بیٹھے تھے جیسے ان میں کافی جھگڑا ہوا تھا۔ جانکی کے گالوں پر آنسوؤں کا میل تھا جب میں کمرے میں داخل ہوا تو ادھر ادھر کی باتوں کے بعد جانکی نے اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا اور عزیز سے کہا۔’’ میں جاتی ہُوں، لیکن بہت جلد واپس آجاؤں گی۔‘‘ پھر مجھ سے مخاطب ہوئی۔’’ سعادت صاحب ان کا خیال رکھیے، ابھی تک بخار دُور نہیں ہُوا۔‘‘ میں اسٹیشن تک اس کے ساتھ گیا۔ بلیک مارکیٹ سے ٹکٹ خرید کر اسے گاڑی پر بٹھایا اور گھر چلا آیا۔ عزیز کو ہلکا ہلکا بخار تھا۔ ہم دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے لیکن جانکی کا ذکر نہ آیا۔ تیسرے روز صبح ساڑھے پانچ بجے کے قریب مجھے باہر کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ اس کے بعد جانکی کی ۔ لفظوں کو اوپر تلے کرتی ہُوئی وہ عزیز سے پوچھ رہی تھی کہ اس کی طبیعت اب کیسی ہے اور کیا اس کی غیر موجودگی میں اس نے باقاعدہ دوا پی تھی یا نہیں۔ عزیز کی آواز میرے کانوں تک نہ پہنچی لیکن آدھ گھنٹے بعد جب کہ نیند سے میری آنکھیں مندرہی تھیں، عزیز کی خفگی آمیز باتوں کا دبا دبا شور سُنائی دیا۔ سمجھ میں تو کچھ نہ آیا لیکن اتنا پتہ چل گیا کہ وہ جانکی سے اپنی ناراضی کا اظہار کررہا تھا۔ صبح دس بجے عزیز نے ٹھنڈے پانی سے غسل کیا اور جانکی کا گرم کیا ہوا پانی ویسے ہی غسل خانے میں پڑا رہا۔ جب میں نے جانکی سے اس بات کا ذکر کیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ نہا دھو کر عزیز باہر چلا گیا۔ جانکی کمرے میں پلنگ پر لیٹی رہی۔ سہ پہر کو تین بجے کے قریب جب میں اس کے پاس گیا تو معلوم ہوا کہ اسے بہت تیز بخار ہے۔ ڈاکٹر بلانے کے لیے باہر نکلا تو عزیز تانگے میں اسباب رکھوا رہا تھا۔ میں نے پوچھا۔ کہا جارہے ہو۔ تو اس نے میرے ساتھ ہاتھ ملایااور کہا، بمبئی! انشاء اللہ پھر ملاقات ہوگی۔ یہ کہہ کروہ اکے میں بیٹھا اور چلا گیا۔ مجھے یہ بتانے کا موقع ہی نہ ملا کہ جانکی کو بہت تیز بخار ہے۔ ڈاکٹر نے جانکی کو اچھی طرح دیکھا اور مجھے بتایا کہ اسے برونکائٹس ہے، اگر احتیاط نہ برتی تو نمونیا ہونے کا خطرہ ہے۔ ڈ اکٹر نسخہ دے کر چلا گیا تو جانکی نے عزیز کے بارے میں پوچھا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ اسے نہ بتاؤں لیکن چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں تھا، اس لیے میں نے کہہ دیا کہ چلا گیا ہے۔ یہ سُن کر اسے بہت صدمہ ہوا۔ دیر تک وہ تکیے میں سر دے کر روتی رہی۔ دوسرے روز صبح گیارہ بجے کے قریب جب کہ جانکی کا بخار ایک ڈگری ہلکا تھا اور طبیعت بھی کسی قدر درست تھی، بمبئی سے سعید کا تار آیا جس میں بڑے درشت لفظوں میں لکھا تھا’’ یاد رہے کہ تم نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔‘‘ میں بہت منع کرتا رہا لیکن وہ تیز بخار ہی میں پونہ ایکسپریس سے بمبئی روانہ ہوگئی۔ پانچ چھ دنوں کے بعد نرائن کا تار آیا’’ ایک ضروری کام ہے، فوراً بمبئی چلے آؤ۔‘‘ میرا خیال تھا کہ کسی پروڈیوسر سے اس نے میرے کنٹریکٹ کی بات کی ہوگی، لیکن بمبئی پہنچ کر معلوم ہوا کہ جانکی کی حالت بہت نازک ہے۔ برونکائٹس بگڑ کر نمونیا میں تبدیل ہوگیا تھا۔ اس کے علاوہ جب وہ پونہ سے بمبئی پہنچی تھی تو اندھیری جانے کے لیے چلتی ٹرین میں چڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے گر پڑی تھی جس کے باعث اس کی دونوں رانیں بہت بری طرح چھل گئی تھیں۔ جانکی نے اس جسمانی تکلیف کو بڑی بہادری سے برداشت کیا۔ لیکن جب وہ اندھیری پہنچی اور سعید نے اس کے بندھے ہوئے اسباب کی طرف اشارہ کرکے کہا’’ مہربانی کرکے یہاں سے چلو جاؤ‘‘ تو اسے بہت روحانی تکلیف ہوئی۔ نرائن نے مجھے بتایا!’’ سعید کے منہ سے یہ برف جیسے ٹھنڈے لفظ سن کر وہ ایک لحظے کے لیے بالکل پتھر ہوگئی میرا خیال ہے اس نے تھوڑی دیر کے بعد یہ ضرور سوچا ہوگا میں گاڑی کے نیچے آکر کیوں نہ مر گئی۔ سعادت تم کچھ بھی کہو مگر سعید عورتوں سے جیسا سلوک کرتا ہے بہت ہی نامردانہ ہے۔ بے چاری کو بخار تھا۔ چلتی ریل سے گر پڑی تھی اور وہ بھی اس خر ذات کے پاس جلدی پہنچنے کے باعث۔ لیکن اس نے ان باتوں کا خیال ہی نہ کیا اور ایک بار پھر اس سے کہا۔ مہربانی کرکے یہاں سے چلی جاؤ۔۔۔ اس کے لہجے میں منٹو کسی جذبے کا اظہار نہیں تھا۔ بس ایسا تھا جیسے لنوٹائپ مشین سے اخبار کی ایک سطر ڈھل کر باہر نکل آئے۔ مجھے بہت دکھ ہوا، چنانچہ میں وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ شام کو جب واپس آیا تو جانکی موجود نہیں تھی لیکن سعید پلنگ پر بیٹھا، رم کا گلاس سامنے رکھے ایک نظم لکھنے میں مصروف تھا۔ میں نے اس سے کوئی بات نہ کی اور اپنے کمرے میں چلا گیا دوسرے روز اسٹوڈیو سے معلوم ہوا کہ جانکی ایک اکسٹرا لڑکی کے گھر خطرناک حالت میں پڑی ہے۔ میں نے اسٹوڈیو کے مالک سے بات کی اور اسے ہسپتال بھجوا دیا۔ کل سے وہیں ہے، بتاؤ اب کیا کیا جائے۔ میں تو اسے دیکھنے جا نہیں سکتا اس لیے کہ وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے۔۔۔۔۔۔ تم جاؤ اور دیکھ کر آؤ کس حالت میں ہے۔ میں ہسپتال گیا تو اس نے سب سے پہلے عزیز اور سعید کے متعلق پوچھا۔ جو سلوک ان دونوں نے اس کے ساتھ کیا تھا، اس کے بعد اس کے پرخلوص استفسار نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس کی حالت نازک تھی۔ ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ دونوں پھیپھڑوں پر ورم ہے اور جان کا خطرہ ہے لیکن مجھے حیرت ہے کہ جانکی اتنی بڑی تکلیف مردانہ وار برداشت کررہی تھی۔ ہسپتال سے لوٹا اور اسٹوڈیو میں نرائن کو تلاش کیا تو معلوم ہوا وہ صبح ہی سے غائب ہے۔ شام کو جب وہ گھر واپس آیا تو اس نے مجھے تین چھوٹی چھوٹی شیشیاں دکھائیں جن کا منہ ربڑ سے بند تھا۔’’ جانتے ہو یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’معلوم نہیں۔ انجکشن سے لگتے ہیں۔‘‘ نرائن مسکرایا۔’’انجکشن ہی ہیں لیکن پنسلین کے۔‘‘ مجھے سخت حیرت ہوئی کیونکہ پنسلین اس وقت بہت ہی قلیل مقدار میں تیار ہوتی تھی۔ امریکہ اور انگلستان میں جتنی بنتی ہے، تھوڑی تھوڑی ملٹری ہسپتالوں میں تقسیم کردی جاتی تھی۔ چنانچہ میں نے نرائن سے پوچھا۔’’ یہ تو بالکل نایاب چیز ہے، تمہیں کیسے مل گئی؟‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔’’ بچپن میں گھر کی تجوری کھول کر روپے چرانا میرے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ آج دائیں ہاتھ سے ملٹری ہوسپٹل کا ریفریجریٹر کھول کر میں نے یہ تین بلب چرائے ہیں۔۔۔۔۔۔ چلو جلدی کرو جانکی کو ہسپتال سے ہوٹل میں لے چلیں۔‘‘ ٹیکسی لے کر میں ہسپتال گیا اور جانکی کو اس ہوٹل میں لے گیا جس میں نرائن دو کمروں کا پہلے ہی بندوبست کر چکا تھا۔ جانکی نے مجھ سے کئی بار نحیف آواز میں پوچھا کہ میں اسے ہوٹل میں کیوں لایا ہوں۔ ہر بار میں نے یہی جواب دیا۔’’ تمہیں معلوم ہو جائے گا۔‘‘ اور جب اسے معلوم ہوا۔ یعنی جب نرائن سرنج ہاتھ میں لیے اسے ٹیکہ لگانے کے لیے اس کمرے میں آیا تو نفرت سے ایک طرف اس نے منہ پھیر لیا اور مجھ سے کہا۔’’ سعادت صاحب اس سے کہئے چلا جائے یہاں سے۔‘‘ نرائن مسکرایا۔’’ جانِ من غصّہ تھوک دو۔ یہاں تمہاری جان کا سوال ہے۔‘‘ جانکی کو طیش آگیا۔ نقاہت کے باوجود اٹھ کر بیٹھ گئی۔’’ سعادت صاحب! میں جاتی ہوں یہاں سے یا آپ اس حرام خور کو نکالیے باہر۔‘‘ نرائن نے دھکا دے کر اسے الٹا دیا اور مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’یہ حرام زادہ تمہیں انجکشن لگا کر ہی رہے گا۔ خبردار جو تم نے مزاحمت کی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک ہاتھ سے مضبوطی کے ساتھ جانکی کا بازو پکڑا، سرنج مجھے دے کر اس نے اسپرٹ میں روئی بھگوئی اور اس کا ڈنڑ صاف کیا۔ اس کے بعد روئی مجھے دے کر اس نے سرنج کی سوئی اس کے بازو کی مچھلی میں داخل کردی وہ چیخی، لیکن پنسلین اس کے جسم میں جا چکی تھی۔ جب نرائن نے جانکی کا بازو اپنی مضبوط گرفت سے علیحدہ کیا تو اس نے رونا شروع کردیا۔ نرائن نے اس کی بالکل پروا نہ کی اور اسپرٹ لگی روئی سے انجکشن والا حصّہ پونچھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ پہلا انجکشن رات کے نو بجے دیا تھا۔ دوسرا تین گھنٹے بعد دینا تھا۔ نرائن نے مجھے بتایا اگر تین کے ساڑھے تین گھنٹے ہوگئے تو پنسلین کا اثر بالکل زائل ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ جاگتا رہا تقریباً ساڑھے گیارہ بجے اس نے اسٹوو جلایا، سرنج ابالی اور اس میں دوا بھری۔ جانکی خرخراہٹ بھرے سانس لے رہی تھی۔ آنکھیں بند تھیں۔ نرائن نے دوسرے بازو کو اسپرٹ سے صاف کیا اورسرنج کی سوئی اندرکھبو دی۔ جانکی کے ہونٹوں سے پتلی سی چیخ نکلی۔ نرائن نے دوا جسم کے اندر بھیج کر سوئی باہر نکالی اور اسپرٹ سے انجکشن والی جگہ صاف کرتے ہوئے مجھ سے کہا۔’’ اب تیسرا تین بجے۔‘‘ مجھے معلوم نہیں اس نے تیسرا چوتھا انجکشن کب دیا۔ لیکن جب بیدار ہوا تو اسٹوو جلنے کی آواز آرہی تھی اور نرائن ہوٹل کے بیرے سے برف کے لیے کہہ رہا تھا کیونکہ اسے پنسلین کو ٹھنڈا رکھنا تھا۔ نو بجے پانچواں انجکشن دینے کے لیے جب ہم دونوں جانکی کے کمرے میں گئے تو وہ آنکھیں کھولے لیٹی تھی۔ اس نے نفرت بھری نگاہوں سے نرائن کی دیکھا لیکن منہ سے کچھ نہ کہا۔ نرائن مسکرایا۔’’ کیوں جان من! کیا حال ہے؟‘‘ جانکی خاموش رہی۔ نرائن اس کے پاس کھڑا ہوگیا۔’’ یہ انجکشن جو میں تمہیں دے رہا ہوں عشق کے انجکشن نہیں۔ تمہارا نمونیہ دُور کرنے کے انجکشن ہیں جو میں نے ملٹری ہوسپٹل سے بڑی صفائی کے ساتھ چرائے ہیں۔۔۔۔۔۔ لو، اب ذرا الٹی لیٹ جاؤ اور کولہے پر سے شلوار کو ذرا نیچے کھسکا دو۔۔۔۔۔۔ کبھی لیا ہے یہاں انجکشن؟‘‘ یہ کہہ کر اس نے جانکی کے کولہے پر ایک جگہ گوشت کے اندر انگلی کھبوئی جانکی کی آنکھوں میں مرعوب سی نفرت پیدا ہُوئی۔ جب اس نے کروٹ بدلی تو نرائن نے کہا۔’’شاباش!‘‘ پیشتر اس کے کہ جانکی کوئی مزاحمت کرے نرائن نے ایک ہاتھ سے اس کی شلوار نیچے کھسکائی اور مجھ سے کہا۔’’اسپرٹ لگاؤ!‘‘ جانکی نے ٹانگیں چلانا شروع کیں تو نرائن نے کہا۔’’جانکی! ٹانگیں وانگیں مت چلاؤ۔۔۔۔۔۔ میں انجکشن لگاکے رہوں گا۔‘‘ غرض کہ پانچواں انجکشن دے دیا گیا۔ پندرہ اور باقی تھے جو نرائن کو ہر تین گھنٹے کے بعد دینے تھے اور یہ پینتالیس گھنٹے کا کام تھا۔ پانچ انجکشن سے گو جانکی کو بظاہر کوئی نمایاں فائدہ نہیں پہنچا تھا۔ لیکن نرائن کو پنسلین کے اعجاز کا یقین تھا اور اسے پوری پوری امید تھی کہ وہ بچ جائے گی۔ ہم دونوں بہت دیر تک اس نئی دوا کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ گیارہ بجے کے قریب نرائن کا نوکر میرے نام ایک تار لے کر آیا۔ پونہ سے تھا۔ ایک فلم کمپنی نے مجھے فوراً بلایا تھا اس لیے مجھے جانا پڑا۔ دس پندرہ دنوں کے بعد کمپنی ہی کے کام سے میں بمبئی آیا۔ کام ختم کرکے جب میں اندھیری پہنچا تو سعید سے معلوم ہوا کہ نرائن ابھی تک ہوٹل ہی میں ہے۔ ہوٹل بہت دور، شہر میں تھا اس لیے رات میں وہیں اندھیری میں رہا۔ صبح آٹھ بجے وہاں پہنچا تو نرائن کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ اندر داخل ہوا تو کمرہ خالی پایا۔ دوسرے کمرے کا دروازہ کھولا تو ایک دم آنکھوں کے سامنے کچھ ہوا۔ جانکی مجھے دیکھتے ہی لحاف کے اندر گھس گئی۔ اور نرائن جو اس کے ساتھ لیٹا تھا،مجھے واپس جاتے دیکھ کر کہا۔ ’’ آؤ منٹو آؤ۔۔۔۔۔۔ میں ہمیشہ دروازہ بند کرنا بھول جاتا ہوں۔۔۔۔۔۔ آؤ یار۔۔۔۔۔۔ بیٹھو اس کرسی پر، لیکن یہ جانکی کی شلوار دے دینا!‘‘